نئی دہلی:بنگلہ دیش کی سیاست پر پانچ دہائیوں تک راج کرنے والی 'برسرِ پیکار بیگمات' کی عداوت کا آج اختتام ہو گیا اسے قدرت کا ایک عجیب فیصلہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک طرف 80 سالہ بیگم خالدہ ضیا زندگی کی بازی ہار گئیں، تو دوسری طرف ان کی دیرینہ حریف شیخ حسینہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد ہندوستان میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں, آج صبح جب ڈھاکہ سے بیگم خالدہ ضیا کے انتقال کی خبر آئی، تو صرف ایک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ بنگلہ دیش کی تاریخ کے ایک ضخیم باب کا اختتام ہوا۔ دوسری جانب شیخ حسینہ، جنہوں نے بنگلہ دیش پر طویل ترین حکمرانی کی، پچھلے سال عوامی بغاوت کے بعد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئیں اور اب وہ دہلی میں پناہ گزین ہیں۔
اس 'سیاسی ڈرا' نے ملک کی باگ ڈور اب نئی نسل کے حوالے کر دی ہے۔ خالدہ ضیا کی موت نے ان کے بیٹے طارق رحمان کے لیے قیادت کی راہ ہموار کر دی ہے، جو لندن میں 17 سالہ جلاوطنی ختم کر کے محض پانچ دن پہلے ہی اپنی بیمار ماں سے الوداعی ملاقات کے لیے ڈھاکہ پہنچے تھے۔ان دونوں خواتین کی کہانی انتقام اور طاقت کی وہ داستان ہے جس کی مثال خطے میں نہیں ملتی۔
شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان 1975 میں قتل ہوئے، جبکہ خالدہ ضیا کے شوہر جنرل ضیاءالرحمان کو 1981 میں قتل کیا گیا۔ اقتدار کی اس جنگ میں دونوں نے ایک دوسرے کو جیل بھیجا اور کرپشن کے سنگین مقدمات کا سامنا کیا۔ یہاں تک کہ ڈھاکہ کے 'ضیاء انٹرنیشنل ایئرپورٹ' کا نام تک تبدیل کر دیا گیا۔ 2006-08 میں فوجی حمایت یافتہ حکومت نے دونوں کو سیاست سے بے دخل کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ بیگمات چٹان کی طرح ڈٹی رہیں اور اس 'مائنس ٹو' فارمولے کو ناکام بنا دیا۔
فروری 2026 میں ہونے والے عام انتخابات اب بالکل مختلف ہوں گے۔ شیخ حسینہ کی جماعت پر انتخابات لڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جس نے ان کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔خالدہ ضیا کی وفات کے بعد ہمدردی کا فیکٹر" ان کی جماعت (بی این پی ) کو فتح کی طرف لے جا سکتا ہے۔
ہندوستان ہمیشہ شیخ حسینہ کا قریبی حلیف رہا ہے، جبکہ خالدہ ضیا اس قربت پر تحفظات کا اظہار کرتی رہی تھیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی صورتحال میں دہلی اور ڈھاکہ کے تعلقات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں خالدہ ضیا کو وہ عزت ملی جو شاید برسوں سے مفقود تھی۔ ڈاکٹر یونس کی عبوری حکومت نے انہیں سرکاری تعاون فراہم کیا اور ڈھاکہ کے مشہور ڈھاکیشوری مندر میں ان کی صحت کے لیے دعائیں کی گئیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ بنگلہ دیش میں اب سیاسی ہواوں کا رخ بدل چکا ہے۔