واشنگٹن: امریکہ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے والے ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں کئی ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کو ان لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تبدیل کیا جا رہا ہے جو یا تو ٹرمپ کے کاروبار سے وابستہ ہیں یا ان کی مالی معاونت سے تعاون کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے خلاف براہ راست رشوت ستانی کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن ان کے ہر بڑے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں رہتے ہوئے بھی اپنے اور اپنے قریبی ساتھیوں کے معاشی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔
کرپٹو کرنسی اسکینڈل سے صدارتی ضیافت تک
حال ہی میں ٹرمپ نے ایک عظیم الشان عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں صرف ان لوگوں کو مدعو کیا گیا جنہوں نے 'ٹرمپ کوائن' کے نام سے سب سے زیادہ کرپٹو کرنسی خریدی تھی۔ اس میں سب سے بڑا نام جسٹن سن کا ہے، جس نے ٹرمپ کی ایک اور کرپٹو فرم میں پہلے ہی 640 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی اور اب وہ ? 340 کروڑ کے ٹرمپ سکے خرید کر عشائیہ پر پہنچے ہیں۔ ٹرمپ کی اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایس ای سی (سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن) نے جسٹن سن کے خلاف جاری کرپٹو فراڈ کیس کو بند کردیا۔
میلانیا ٹرمپ اور ایمیزون کا معاہدہ
ایمیزون نے ٹرمپ کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ پر بننے والی دستاویزی فلم کے لیے 340 کروڑ روپے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ خاندان کس طرح صدر کی کرسی کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ٹرمپ آرگنائزیشن قطر، سعودی عرب، عمان اور یو اے ای میں رئیل اسٹیٹ کے منصوبے شروع کرنے جا رہی ہے۔ ویتنام کی حکومت نے ہنوئی اور ہو چی منہ شہر میں ٹرمپ کی فلک بوس عمارت کے قریب 12,847 کروڑ روپے کے گولف کمپلیکس کی اجازت دی ہے۔ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں ہی تقریباً 2,000 کروڑ روپے اکٹھے کیے گئے۔
کرپشن کا کھلا کھیل : ٹرمپ کی ذاتی کمائی
نیویارک ٹائمز اور فوربس کے اندازوں کے مطابق، ٹرمپ نے گزشتہ 9 مہینوں میں کرپٹو کرنسی کے ذریعے 8,569 کروڑ روپے کمائے ہیں۔ اس عرصے کے دوران حکومت نے کرپٹو فراڈ کے بہت سے معاملات کو معاف کر دیا ہے، بہت سی تحقیقات بند کر دی گئی ہیں، وہ بھی اس وقت جب کمپنیوں نے اپنے جرائم کو قبول کر لیا تھا۔ تاریخ دان میتھیو ڈیلک کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ جدید دور کے کرپٹ ترین صدر ہیں۔ وہ اپنے لالچ کو کامیابی کی علامت سمجھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے دور میں ایک ایسا کلچر پروان چڑھ رہا ہے جس میں سیاست اور نجی کاروبار کو ملایا گیا ہے۔ وہ طاقت کو ذاتی فائدے اور اپنے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے استعمال کر رہا ہے جس سے امریکہ کے جمہوری اداروں اور عالمی ساکھ کو گہرا نقصان پہنچ رہا ہے۔