National News

خلاصہ : ٹرمپ اور جنرل منیر کی میٹنگ کے بعد ہواایران پر حملہ، پاک- امریکہ میں پکی زبردست کھچڑی

خلاصہ : ٹرمپ اور جنرل منیر کی میٹنگ کے بعد ہواایران پر حملہ، پاک- امریکہ میں پکی زبردست کھچڑی

انٹرنیشنل ڈیسک: امریکہ کے ایران پر ایٹمی حملے سے صرف چار روز قبل ہونے والی ملاقات نے ہلچل مچا دی ہے۔ 18 جون کو پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے واشنگٹن ڈی سی میں سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ یہ محض رسمی لنچ نہیں تھا، خدشہ ہے کہ اس ملاقات میں ایران پر ممکنہ فوجی کارروائی کے بارے میں سنجیدہ بات چیت ہوئی۔ اور صرف چار دن بعد امریکہ نے بنکر بسٹر بموں سے ایران کے تین بڑے ایٹمی اڈوں کو نشانہ بنایا۔ کیا یہ ملاقات اس حملے کی پیشگی تیاری کا حصہ تھی؟
18 جون کو ٹرمپ اور پاکستانی آرمی چیف منیر کی واشنگٹن میں ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد 22 جون کو امریکی فوج نے ایران پر سب سے بڑا حملہ کیا۔ اب سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان نے امریکہ کو فوجی مدد دی؟ پاکستان اور ایران کے درمیان تقریباً 900 کلومیٹر کی سرحد ہے۔ ایسی صورت حال میں، پاکستان کا تعاون امریکہ کے لیے تزویراتی طور پر بہت اہم ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر امریکی طیاروں کو اوور فلائٹ، ایئربیس یا لاجسٹک سپورٹ کی ضرورت ہو۔ پینٹاگون کے سابق مشیر مائیکل روبن نے دعویٰ کیا کہ یہ وہی حکمت عملی ہے جو 2003 میں عراق جنگ کے دوران اختیار کی گئی تھی، اس وقت یہ کارروائی امریکی طیاروں کی ایرانی ہوائی اڈوں پر اترنے کی رضامندی سے کی گئی تھی۔
روبن کے مطابق پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی اسی 'ضرورت کے وقت استعمال' کے فریم ورک پر چلتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ پاکستان کو اس وقت اہمیت دیتا ہے جب اس کی سٹریٹجک ضرورت ہوتی ہے، ورنہ وہ اسے کنارے کر دیتا ہے۔ اس بار بھی وہی دہرایا جا رہا ہے۔ ابتدائی خاموشی کے بعد پاکستان نے سرکاری طور پر امریکی حملے کی مذمت کی۔ اس جواب میں کہا گیا کہ یہ حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس سے علاقائی امن کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ تاہم یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب حال ہی میں پاکستان نے ڈونالڈ ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا تھا۔ ایسے میں یہ دوہرا رویہ خود پاکستان کے اندر بھی سوالیہ نشان ہے۔
ایران کے ساتھ سرحد کی وجہ سے امریکہ کو لاجسٹک، ڈرون آپریشن اور انٹیلی جنس سرگرمیوں کے لیے پاکستان میں ایک اڈے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کوئٹہ یا تربت جیسے سرحدی علاقوں میں عارضی امریکی اڈے قائم کیے جا سکتے ہیں۔ ایک مسلم ملک ہونے کے ناطے امریکہ کو عالمی تنقید کو متوازن کرنے کے لیے پاکستان کی 'علامتی حمایت' کی بھی ضرورت تھی۔ ٹرمپ کے حملے کے بعد مغربی ایشیا میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ لیکن پاکستان کے کردار پر اٹھنے والے سوال اس کے لیے ایک نئی سفارتی پیچیدگی بن گئے ہیں۔ ایک طرف امریکہ سے قربت تو دوسری طرف ایران کے ساتھ مسلم بھائی چارہ اور پاکستان کی خارجہ پالیسی درمیان میں پھنسی ہوئی ہے۔
 



Comments


Scroll to Top