انٹرنیشنل ڈیسک: امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، روس اور یوکرین کے درمیان جاری امن مذاکرات کے کئی مراحل کے بعد کہا ہے کہ وہ اب 'وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے'۔ ٹرمپ روس کے علاوہ یورپی ممالک اور یوکرین سے بھی ناراض ہیں۔ یورپ طویل عرصے سے ٹرمپ کی اس تجویز سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں یوکرین کو روس کو کچھ علاقوں کی تفویض کرنے کی بات کی گئی تھی۔ یورپ نے اس منصوبے کو ناقابل قبول قرار دیا ہے، جبکہ ٹرمپ اسے 'فوری طور پر نافذ ہونے والا حل' سمجھتے ہیں۔ ٹرمپ نے روس-یوکرین کے تصادم کی تیسری عالمی جنگ تک پہنچنے کا امکان بتاتے ہوئے خبردار کیا اگر ہر کوئی اسی طرح کے کھیل کھیلتا رہا، تو آخرکار تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے گی۔ یہ بیان ان تمام ممالک کو براہِ راست پیغام ہے جو کسی بھی فریق کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ڈپلومیسی سے دوری اور زیلنسکی کا انکشاف
ٹرمپ نے ایک بزنس راو¿نڈٹیبل میں اپنی جھنجھلاہٹ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ یورپ میں صرف ملاقاتوں کے لیے وقت ضائع نہیں کر سکتے۔ یہ بیان بتاتا ہے کہ ٹرمپ اب خود کو اس سفارتی عمل سے دور کرنے کی تیاری میں ہیں۔ دوسری جانب، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے پہلی بار یہ تسلیم کیا کہ امریکہ ان پر 'بڑے علاقے چھوڑنے' کا دباو¿ ڈال رہا ہے۔ زیلنسکی نے انکشاف کیا کہ تنازع کی سب سے بڑی وجہ ڈونیتسک علاقہ اور زاپورِجیا نیوکلیئر پلانٹ پر کنٹرول ہے۔

روس کی 'انرجی ATM' پر یوکرین کا بڑا حملہ
اسی تناو¿ کے درمیان یوکرین نے ایسا قدم اٹھایا ہے جس نے روس کو چونکا دیا ہے۔ یوکرین نے پہلی بار کیسپین سی میں روس کے آف شور تیل کے پلیٹ فارم کو طویل فاصلے کے ڈرون سے نشانہ بنایا ہے۔ ماہرین اسے روس کی تیل کی آمدنی، جسے وہ 'انرجی ATM' کہتے ہیں، پر براہِ راست حملہ سمجھ رہے ہیں، کیونکہ اسی پیسے سے روس اپنے جنگی نظام کو مضبوط کر رہا ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں یوکرین نے روس کی انرجی سہولیات پر حملے تیز کر دیے ہیں، اگست سے نومبر کے درمیان 77 انرجی سہولیات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اب یوکرین ایک ہی ریفائنری کو بار بار ہدف بنا رہا ہے تاکہ وہ مکمل طور پر فعال نہ ہو سکے۔
ماہرین کی رائے
ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کے اس جارحانہ اقدام کے نتیجے میں روس کی مرمت کی رفتار کافی سست ہو گئی ہے۔ دوسری جانب محاذ پر روس آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے اور ہر مذاکرات کے مرحلے سے روس کے مطالبات مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔