National News

شاہین باغ پہنچے مذاکرات کاروں نے مظاہرین سے پوچھا '' راستہ کیسے کھلے گا''، دادی نے کہا- جب سی اے اے  واپس ہوگا

شاہین باغ پہنچے مذاکرات کاروں نے مظاہرین سے پوچھا '' راستہ کیسے کھلے گا''، دادی نے کہا- جب سی اے اے  واپس ہوگا

 نئ دہلی: دہلی کے شاہین باغ میں مرکزی حکومت اور مظاہرین کے درمیان مفاہمت کا راستہ کھل سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر مذاکرات کار سینئر وکیل سنجے ہیگڑے اور سینئر وکیل سادھنا رام چندرن شاہین باغ پہنچے ہیں۔  جب مذاکرات کار شاہین باغ مظاہرے کے اسٹیج پر پہنچے، تو لوگوں نے تالیاں بجا کر استقبال کیا۔

PunjabKesari
مذاکرات کاروں نے کہا کہ میڈیا کی موجودگی میں ہم مظاہرین کے ساتھ بات چیت نہیں کرنا چاہتے ہیں۔میڈیا پہلے ہمیں مظاہرین سے بات چیت کرنے دے۔اس کے بعد ہم اس  کی جانکاری خود میڈیا کو دیں گے ، فی الحال میڈیا باہر جائے ۔ مذاکرات کے دو ران سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن نے مشترکہ طور پر  سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے یہی بات کہی کہ مظاہرہ کرنا آپ سب کا حق ہے ، لیکن اس سے کسی کو پریشانی نہیں ہوئی چاہئے ، ہم  کو دوسروں کے حقوق  کا بھی خیال رکھنا ہے ۔سنجے ہیگڑے نے کہا کہ ہمارے پاس وقت ہے۔ہم آپ کو سننے آئے ہیں۔سنجے ہیگڑے نے یہ بھی کہا کہ ہم یہاں فیصلہ سنانے نہیں آئے ہیں، بلکہ مذاکرات کرنے آئے ہیں۔

PunjabKesari
مذاکرات کار سنجے ہیگڑے نے کہا کہ ہم سب کی بات سننے آئے ہیں ہمیں کوئی جلد بازی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب سے پہلے  'دادی ' کی بات سنیں گے اور پھر عمر میں بڑے لوگوں کی بات آرام سے  سنیں گے ۔ ہم کم بولیں گے اور سنیں گے زیادہ۔ اس دوران جب مذاکرات کارو ں نے مظاہرین سے پوچھا کہ راستہ کس طرح کھل جائے گا، تو شاہین باغ کی  دادی نے کہا کہ جب تک شہریت ترمیمی ایکٹ( سی اے اے ) واپس نہیں لیا جاتا ہے، اس وقت تک ہم ایک انچ بھی پیچھ نہیں ہٹیں گے، پھر چاہے کوئی ہم پر فائرنگ ہی کیوں نہ کرے۔

PunjabKesari
مظاہرین کا کہنا ہے کہ ہم پر غدار ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ ہمیں گولی مارنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم غدار نہیں ہیں، بلکہ محب وطن ہیں۔ہم نے انگریزوں سے مقابلہ کیا ہے۔
وہیں، میڈیا اہلکاروں کا مطالبہ ہے کہ انہیں سوال پوچھنے دیے جائیں۔اس کے علاوہ مظاہرین کا بھی یہ کہنا ہے کہ میڈیا کو یہاں رہنے دیا جائے۔ اس کے باوجود اگر کسی طرح کی کوئی تکلیف ہوتی ہے تو میڈیا کو جانے کے لئے ہم کہہ دیں گے۔کچھ خواتین بھی میڈیا کی موجودگی کی مخالفت کر رہی ہیں۔



Comments


Scroll to Top