انٹرنیشنل ڈیسک: جاپان اپنی غیر ملکی مزدور پالیسی میں بڑی تبدیلی کی تیاری کر رہا ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مالی سال 2027 سے شروع ہونے والے نئے ' ایمپلائمنٹ فار اسکل ڈیولپمنٹ ' پروگرام کے تحت ابتدائی دو برسوں میں زیادہ سے زیادہ 4 لاکھ 26 ہزار غیر ملکی کارکنوں کو ہی اجازت دی جائے گی۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جاپان کو شدید افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے، لیکن ملک میں بڑھتی ہوئی ہجرت کے حوالے سے عوامی تشویش بھی بڑھ رہی ہے۔
کیوڈو نیوز کے مطابق وزیر اعظم سانے تاکائچی کی ہدایت پر حکومت غیر ملکی کارکنوں کی پالیسیوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ اس میں ویزا کی مدت ختم ہونے کے بعد رکنے والوں کے خلاف سختی اور نگرانی میں اضافے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ جاپان میں طویل عرصے سے نافذ ٹیکنیکل انٹرن ٹریننگ پروگرام کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس منصوبے پر سستے مزدوروں کے استحصال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اس کی جگہ اب ایک نیا مہارت پر مبنی ڈھانچہ متعارف کرایا جائے گا، جس کے تحت غیر ملکی کارکنوں کو تین برس بعد اسپیسیفائیڈ اسکلڈ ور( SSW) کر کے درجے میں جانے کی ترغیب دی جائے گی۔
حکومتی مسودے کے مطابق مارچ 2029 تک جاپان تقریبا آٹھ لاکھ پانچ ہزار غیر ملکی کارکنوں کو اسپیسیفائیڈ اسکلڈ ورکر اسکیم کے تحت قبول کرے گا۔ یہ تعداد مارچ2024 میں مقرر 8 لاکھ 20ہزار کے ہدف سے کچھ کم ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر کے اس کمی کی تلافی کی جا سکتی ہے۔ نئی نظام کے تحت زراعت اور تعمیرات سمیت سترہ شعبوں کو شامل کیا جائے گا۔ اس وقت جاپان میں تقریبا 3.33 لاکھ اسپیسیفائیڈ اسکلڈ ورکر ون ویزا رکھنے والے اور 4.49 لاکھ تکنیکی تربیت یافتہ کارکن کام کر رہے ہیں۔ امکان ہے کہ کابینہ سے اس منصوبے کو جنوری میں حتمی منظوری مل جائے گی۔