National News

بھارت کی دو ٹوک: کینیڈین وزیرِ دفاع کا دعویٰ کیا مسترد، کہا-سفارت خانے میں مکمل اسٹافنگ کی اجازت کبھی نہیں دی

بھارت کی دو ٹوک: کینیڈین وزیرِ دفاع کا دعویٰ کیا مسترد، کہا-سفارت خانے میں مکمل اسٹافنگ کی اجازت کبھی نہیں دی

انٹرنیشنل ڈیسک: بھارت کے ہائی کمشنر دینیش پٹنایک نے کینیڈا کی وزیر خارجہ انیتا آنند کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ “بھارت نے کینیڈا کو اپنے سفارت خانے میں مکمل اسٹافنگ (مکمل عملہ بحالی)” کی اجازت دے دی ہے۔ پٹنایک نے کہا کہ بھارت نے “مکمل اسٹافنگ” کی اجازت نہیں دی بلکہ صرف اتنے افسران پر اتفاق کیا ہے جو مشنز کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے ضروری ہیں۔ انیتا آنند نے حال ہی میں بھارت کے دورے کے بعد کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ اتفاق ہوا ہے کہ کینیڈا اپنے سفارت خانے کو دوبارہ پہلے کی طرح مکمل طور پر اسٹاف کر سکے گا۔ لیکن بھارتی فریق کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا ہے اور موجودہ ڈھانچہ صرف ضرورت کے مطابق محدود بحالی کی اجازت دیتا ہے۔
پس منظر: 2023 کا سفارتی بحران
اکتوبر 2023 میں بھارت اور کینیڈا کے درمیان تعلقات اس وقت بگڑ گئے تھے جب بھارت نے 41 کینیڈین سفارت کاروں کی سفارتی چھوٹ (immunity) ختم کرنے کی وارننگ دی تھی۔ اس کے بعد کینیڈا نے اپنے بیشتر سفارت کاروں کو واپس بلا لیا تھا۔ یہ تنازع برٹش کولمبیا میں خالصتانی کارکن ہر دیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد شروع ہوا، جس میں اوٹاوا نے بھارت پر ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے تھے۔
سفارت خانوں میں عملی مشکلات
بھارت کے ہائی کمشنر پٹنایک نے کہا کہ اب اصل مسئلہ افسران کی تعداد نہیں بلکہ ویزا کے عمل میں بھاری تاخیر اور ماہرین کو ویزا جاری کرنے میں پیچیدگیاں ہیں۔ انہوں نے بتایا، “کچھ بھارتی ماہرین کو چھ چھ ماہ تک ویزا نہیں ملتا۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان کام کاج اور تعاون متاثر ہو رہا ہے۔”
تجارت اور طلباءویزا پر اثر
تجزیہ کاروں کے مطابق اس جاری تناو کا اثر بھارت۔کینیڈا تجارتی مذاکرات، سرمایہ کاری معاہدوں اور طلبہ و تارکین وطن کے ویزا کے عمل پر واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف بھارت اپنے سفارت خانوں میں سلامتی اور حساسیت کو ترجیح دے رہا ہے، وہیں کینیڈا اسے “سفارتی تعاون میں رکاوٹ” کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ دونوں ملکوں کو اب “مکالمہ اور اعتماد کی بحالی” پر زور دینا ہوگا، کیونکہ صرف عملے کی تعداد بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ تعلقات کی بحالی کے لیے شفافیت، حساسیت اور سیاسی پختگی کی ضرورت ہے۔



Comments


Scroll to Top