بیجنگ: چین کی ایک بچے کی پالیسی اب اس کے معاشرے پر بھاری بحران بن کر ٹوٹ رہی ہے۔ دہائیوں تک لڑکی کے جنین کشی کے باعث آج چین میں لاکھوں نوجوانوں کو شادی کے لائق لڑکیاں نہیں مل پا رہیں۔ اس کمی نے ایک نیا، خطرناک رجحان پیدا کر دیا ہے سرحد پار دلہن تلاش کرنے کا بزنس جو اب پاکستان اور بنگلادیش میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔
کیسے شروع ہوا ’برائیڈ ہنٹ‘ کا کھیل
خواتین کی بھاری کمی کے باعث چین میں بڑی تعداد میں غیر شادی شدہ نوجوان مرد اب غیر ملکی دلہنیں تلاش کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بنگلادیش اس لیے نشانے پر ہیں کیونکہ ان سب نے ان ممالک کو چینی مردوں کے لیے “دلہن بازار” بنا دیا ہے۔
- اقتصادی تنگی زیادہ
- شادی کا خرچ بھاری
- خاندان آسانی سے پھنس جاتے
- چین سے دوستانہ رشتے
سب سے بڑا خطرہ
2019 میں پاکستان کی FIA نے چونکا دینے والا انکشاف کیا ایک بین الاقوامی سیکس ٹریفکنگ گینگ چینی مردوں کی جعلی شادیاں کرکے پاکستانی لڑکیوں کو چین بھیج رہا تھا۔ لڑکیوں کو امیر دولہے کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ چین پہنچ کر پاسپورٹ چھین لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کئیوں کو جسم فروشی میں دھکیلا جاتا اور کچھ کو غیر قانونی اعضا کے کاروبار کا شکار بنایا جاتا تھا۔ اسی طرح کے معاملے لاوس، ویتنام، کمبوڈیا، میانمار اور بنگلادیش میں بھی سامنے آ چکے ہیں۔
پاکستان میں عیسائی لڑکیاں ٹارگٹ
غیر قانونی میرج سینٹر غریب عیسائی خاندانوں کو پھنساتے ہیں۔ چینی دولہوں کو “مذہب تبدیل کرنے والے امیر نو عیسائی” کے طور پر دکھایا جاتا ہے تاکہ خاندان اعتماد کر لے۔ کئی لڑکیوں نے واپس آکر بتایا کہ انہیں مارپیٹ، قید، جبری مذہب تبدیلی اور جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑا۔
بنگلادیش بھی بنا اسمگلروں کا نیا ٹھکانہ
ڈھاکہ میں چینی سفارتخانے نے حال ہی میں وارننگ جاری کی تھی کہ ان کے شہری مقامی خواتین سے شادی نہ کریں یعنی خطرہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ چین خود دولہوں کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین میں ایسے نوجوانوں کو Leftover Men کہا جاتا ہے۔ یہاں مرد زیادہ، عورتیں کم ہونے کے باعث مقامی شادی کا بازار ختم ہو رہا ہے، اس لیے نظریں اب پڑوسی ممالک کی طرف ہیں۔
بین الاقوامی ایجنسیاں مسلسل خبردار کر رہی ہیں کہ یہ رجحان صرف شادی نہیں بلکہ ایک بڑی انسانی اسمگلنگ چین میں بدل چکا ہے۔ غربت، لالچ اور سماجی دباو کا فائدہ اٹھا کر ہزاروں لڑکیوں کو “دلہن” کے نام پر غلامی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔