اسلام آباد: حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی غیر ملکیوں کے خلاف چلا رہی کارروائی کے تحت اب، افغانوں کو بہت ہی کم وقت میں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کچھ کو صرف 45 منٹ، کسی کو 6 گھنٹے کا وقت دیا گیا اور پھر ”پاکستان کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے“ کا سخت حکم دیا گیا۔ پی او کے میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والا 42 سالہ افغان شیر خان جب کام سے واپس آیا تو دروازے پر ایک پولیس اہلکار کھڑا تھا۔ شیر خان اور اس کی بیوی نے اپنے نو بچوں کے لیے کچھ کپڑے اور برتن باندھے اور باقی سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے برسوں سے جو سامان اور چیزیں جمع کی تھیں وہ پیچھے رہ گئیں۔
شیر خان جیسے لاکھوں افغان مہاجرین، جو پاکستان میں پیدا ہوئے یا کئی دہائیوں تک اس میں رہ رہے تھے ، اب بے گھر ہو چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک 10 لاکھ سے زیادہ افغان پاکستان چھوڑ چکے ہیں اور لاکھوں اب بھی کارروائی کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ افغان سرحد پر واقع طورخم کیمپ مہاجرین کے قیام کا پہلا مقام ہے۔ یہاں ہر خاندان کو ایک سم کارڈ اور 10,000 افغانی (تقریباً 12,000 روپے) دیے جاتے ہیں۔ کیمپ کے ڈائریکٹر مولوی ہاشم میوندوال کے مطابق پہلے روزانہ 1200 خاندان آتے تھے، اب یہ تعداد کم ہو کر 150 رہ گئی ہے تاہم عید کے بعد ہجوم میں دوبارہ اضافہ متوقع ہے۔
مقامی تنظیم 'اصیل' آخری منزل تک حفظان صحت کی کٹس، خوراک اور کھانے کے پیکج فراہم کر رہی ہے۔ لیکن ان کے نمائندے نجیب اللہ غیاثی نے کہاتعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہم ہر ایک کی مدد نہیں کر سکتے۔ 50 سالہ یار محمد، جو 45 سال سے PoK میں رہ رہا تھا اور فرش چمکانے کا کاروبار کرتا تھا، انہیں چھ گھنٹے کا وقت دے کر نکال دیا گیا۔ پولیس آئی اور کہا کہ پاکستان چھوڑ دو۔ میں نے اتنے سالوں میں جو کچھ بھی کمایا، اسے ٹینٹ میں ڈال کر لانا پڑا۔ دھوپ اور بارش میں مشینیں خراب ہو رہی ہیں۔ اب محمد کابل میں کرائے پر رہ رہے ہیں اور دوبارہ کام شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کی سخت وارننگ
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق، پاکستان اور ایران نے مل کر صرف اپریل اور مئی 2025 میں تقریباً 5 لاکھ افغانوں کو بے دخل کیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے الزام لگایا کہ پاکستان پولیس نے گھروں پر چھاپے مارے، لوگوں کو مارا پیٹا، دستاویزات ضبط کیں اور رشوت لے کر انہیں رہنے دیا گیا۔ پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ دہشت گرد حملے سرحد پار سے افغانوں کے ذریعے کیے جا رہے ہیں، حالانکہ طالبان نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اخراج باعزت طریقے سے ہو رہا ہے لیکن زمینی صورتحال اس کی تصدیق نہیں کرتی۔ مہاجرین اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن مالی مجبوریوں، وسائل کی کمی اور غیر یقینی مستقبل انہیں پریشان کر رہے ہیں۔ “جو کھو گیا، اللہ یہاں بھی دے دے گا” شیر خان کی امید وںکی جھلک، لیکن حقیقت اس سے بھی کہیں زیادہ تلخ ہے۔