واشنگٹن: امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کے لیے پیش کیے گئے 20 نکاتی امن منصوبے کے سلسلے میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر امریکہ نے کھلے طور پر حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت جنگ زدہ فلسطینی علاقے میں بین الاقوامی استحکام فورس (International Stabilization Force – ISF) کی تعیناتی کی تجویز دی گئی ہے، جس میں مسلم اکثریتی ممالک سے فوجی بھیجنے کی بات کہی گئی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکہ پاکستان کا شکر گزار ہے کہ اس نے اس بین الاقوامی فورس کا حصہ بننے پر غور کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ روبیو کے مطابق ہم ان تمام ممالک کی تعریف کرتے ہیں جو غزہ میں استحکام قائم کرنے کے لیے زمینی سطح پر موجود رہنے کو تیار ہیں یا اس پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ تاہم امریکہ کے اس منصوبے پر شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یقیناً کچھ نہ کچھ تو ہے کہ امریکہ پاکستان کی اتنی تعریف کر رہا ہے۔
پاکستان کا موقف
پاکستان نے ابھی تک غزہ میں فوجی بھیجنے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ وہ اس تجویز پر غور کر رہا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرا بی نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں واضح کیا کہ ISF میں پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ مارکو روبیو نے بتایا کہ پاکستان سمیت دیگر ممکنہ ممالک کے ساتھ بات چیت ابتدائی مرحلے میں ہے۔ کئی اہم سوالات پر اتفاق ابھی باقی ہے۔
- بین الاقوامی فورس کا مینڈیٹ کیا ہوگا؟
- فنڈنگ کا انتظام کیسے کیا جائے گا؟
- فوجیوں کی تعیناتی اور حفاظت کی ذمہ داری کس کے ہاتھ میں ہوگی؟
- روبیو نے کہاپاکستان جیسے ممالک کے لیے رضامندی ظاہر کرنے سے پہلے ان سوالات کے واضح جواب ضروری ہیں۔
عاصم منیر–ٹرمپ ملاقات پر معمہ
اس دوران، رائٹرز کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کے چیف آف ڈیفنس فورس اور فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر واشنگٹن جا کر صدر ٹرمپ سے ملاقات کر سکتے ہیں اور غزہ استحکام فورس اس گفتگو کا اہم موضوع ہوگا۔ تاہم، پاکستانی وزارت خارجہ نے اس دعوے کی تردید کی۔ اسی دوران وائٹ ہاو¿س نے بھی واضح کیا کہ فی الحال ٹرمپ اور عاصم منیر کے درمیان کسی ملاقات کا شیڈول صدر کے کیلنڈر میں نہیں ہے۔ غزہ کے لیے بین الاقوامی فوجی فورس کی تجویز کو مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک نیا موڑ سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان کی شمولیت نہ صرف علاقائی توازن بلکہ مسلم ممالک کے اجتماعی کردار کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اب سب کی نظریں اس بات پر ہیں کہ اسلام آباد کب اور کیا حتمی فیصلہ کرتا ہے۔