انٹرنیشنل ڈیسک:بنگلہ دیش میں طلبہ رہنما اور انقلاب منچ کے کنوینر اور ترجمان شریف عثمان ہادی کی موت کے بعد ملک کے حالات انتہائی کشیدہ بنے ہوئے ہیں۔ ہفتہ کو ڈھاکہ کے مانک میا ایونیو واقع قومی اسمبلی بھون کے ساوتھ پلازا میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ صبح سے ہی لوگ چھوٹے چھوٹے گروپوں میں اسمبلی بھون کے سامنے جمع ہونے لگے تھے۔ جنازے کے دوران انصاف کے مطالبے کو لے کر نعرے لگائے گئے اور کئی لوگ قومی پرچم اوڑھے نظر آئے۔ خاندان کی خواہش کے مطابق ہادی کو ڈھاکہ یونیورسٹی کیمپس میں قومی شاعر قاضی نذر الاسلام کی قبر کے قریب دفن کیا گیا۔
جنازے سے پہلے دارالحکومت میں سخت سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے۔ اسمبلی بھون اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں پولیس، بارڈر گارڈ بنگلہ دیش بی جی بی اور دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کی بھاری تعیناتی رہی۔ دو دن تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد ہفتہ کو ڈھاکہ میں حالات نسبتاً پرسکون دیکھے گئے۔ ہادی کی موت پر ملک بھر میں سرکاری سوگ منایا گیا۔ قومی پرچم سرنگوں رہے اور مختلف مذہبی مقامات پر خصوصی دعائیں کی گئیں۔ شریف عثمان ہادی کو 12 دسمبر کو ڈھاکہ کے بجینگر علاقے میں رکشے پر جاتے وقت گولی ماری گئی تھی۔ پہلے انہیں ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال اور پھر ایورکیئر ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ حالت نازک ہونے پر 15 دسمبر کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے سنگاپور لے جایا گیا، جہاں 18 دسمبر کی رات علاج کے دوران ان کی موت ہو گئی۔ جمعہ کو ان کا جسدِ خاکی ڈھاکہ لایا گیا تھا۔
ہادی کی موت کے بعد بنگلہ دیش کے کئی حصوں میں احتجاجی مظاہرے، آتش زنی اور تشدد کے واقعات سامنے آئے۔ میڈیا اداروں، سرکاری تنصیبات اور سیاسی رہنماوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ حالات بگڑنے پر انتظامیہ نے سکیورٹی مزید سخت کر دی۔ اسی دوران میمن سنگھ میں ہندو نوجوان دیپو چندر داس کے قتل اور لکشم پور میں بی این پی رہنما کے گھر میں آتش زنی جیسے واقعات نے ماحول کو مزید کشیدہ بنا دیا۔ ہفتہ کو شہید سہروردی میڈیکل کالج ہسپتال میں ہادی کا پوسٹ مارٹم سخت سکیورٹی کے درمیان مکمل کیا گیا۔ پولیس، انصار، بی جی بی اور فوج کے جوان تعینات رہے۔