انٹرنیشنل ڈیسک: امریکہ میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دوسرے ممالک سے آنے والے سامان پر بھاری ٹیرف لگایا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس قدم سے امریکہ میں پیداوار (مینوفیکچرنگ)بڑھے گی اور لوگوں کو روزگار ملے گا۔ حالانکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکس سے امریکی شہریوں پر مہنگائی کا بوجھ بڑھے گا اور معیشت کو نقصان ہوگا۔
کیا ہوتا ہے ٹیرف اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
ٹیرف کا مطلب ہے غیر ملکی سامان پر لگنے والا ٹیکس۔ جب کوئی غیر ملکی کمپنی اپنا سامان امریکہ میں بیچتی ہے تو اسے امریکی حکومت کو یہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس ٹیکس کی وجہ سے غیر ملکی سامان مہنگا ہو جاتا ہے جس سے امریکہ میں بنی اشیا کو لوگ زیادہ خریدتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر بھارت میں بنی کوئی چیز 100 روپے کی ہے تو امریکہ میں 50% ٹیرف لگنے کے بعد اس کی قیمت 150 روپے ہو جائے گی۔ اس سے ملنے والے 50 روپے امریکی حکومت کے خزانے میں جائیں گے لیکن اس کا سیدھا بوجھ امریکی گاہکوں پر پڑے گا۔
ٹرمپ نے کیوں لگایا ٹیرف؟
ٹرمپ کا اہم مقصد امریکہ کے تجارتی خسارے (trade deficit) کو کم کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرے ممالک نے امریکہ کا استحصال کیا ہے اور اب وہ 'جیسے کو تیسا' والا اصول اپنائیں گے۔ انہوں نے کہا تھا، "ہمارا ملک دوسروں سے لوٹا جا رہا ہے۔ امریکی ٹیکس دہندگان کو 50 سالوں سے لوٹا جا رہا ہے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔"
انہوں نے ریسپروکل ٹیرف (Reciprocal Tariff) یعنی باہمی ٹیکس کا تاریخی حکم دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ دوسرے ممالک امریکہ پر جتنا ٹیکس لگائیں گے امریکہ بھی ان پر اتنا ہی ٹیکس لگائے گا۔
ٹیرف سے کس کو ہوگا نقصان؟
ٹرمپ کا ماننا ہے کہ ٹیرف سے حکومت کی آمدنی بڑھے گی اور لوگ امریکہ میں بنی چیزیں خریدیں گے جس سے مقامی پیداوار کو فروغ ملے گا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے غیر ملکی کمپنیوں کو امریکہ میں اپنا سامان بیچنا مشکل ہوگا جس سے درآمدات کم ہوں گی۔ اس کا اثر صرف غیر ملکی کمپنیوں پر نہیں بلکہ امریکی شہریوں پر بھی پڑے گا جنہیں وہی سامان اب زیادہ قیمت میں خریدنا پڑے گا۔
ٹرمپ نے چین، میکسیکو، کینیڈا اور روس کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک پر بھی ٹیرف لگانے کی دھمکی دی ہے۔ فی الحال کئی ممالک کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور کچھ ٹیرف میں تبدیلی بھی کی گئی ہے۔