ممبئ:مراٹھی مانش کی سیاست کرنے والے راج ٹھاکرے اتوار کو ہندوتو کے نئے اوتار میں نظر آئے۔انہوں نے ہندوتو کی ہنکار بھری اور سی اے اے کی مخالفت کرنے والے مسلمانوں کو سخت لہجے میں خبردار کیا کہ ابھی مارچ کا جواب ما رچ سے دیا ہے۔ لیکن آگے پتھر کا جواب پتھر سے اور تلوار کا جواب تلوار سے دیں گے۔
اتوار کو مہاراشٹر نونرمان سینا (ایم این ایس) نے ہندو جم خانہ سے آزاد میدان تک بنگلہ دیش اور پاکستانی مسلمان گھس پیٹھیوں کے خلاف مارچ نکالا۔آزاد میدان میں جم غفیر کو خطاب کرتے ہوئے راج ٹھاکرے نے سی اے اے کی حمایت کی۔ وہیں، مخالفت کرنے والوں کو خبردار کیا۔انہوں نے کہا کہ اب تو نائجیرین بھی آنے لگے ہیں۔کل یہ تم پر ہاتھ بھی اٹھائیں گے۔ باہر سے آئے ہوئے گھس پیٹھیوں کی وجہ بم دھماکے ہوتے ہیں اور فساد بھی انہی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ راج نے کہا کہ جہاں مراٹہی مسلم رہتے ہیں وہاں کبھی فساد نہیں ہوتا۔ اگر زیادہ ڈرامہ کریںگے تو اسی انداز میں جواب دیا جائے گا۔
ایک بار ملک کی صفائی ضروری ہے
راج ٹھاکرے نے کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں جو آزادی ملی ہے، دوسرے کسی ملک میں ایسی آزادی نہیں ہے۔ جس ملک نے اتنا دیا ہے اس کو برباد کرنے پر کیوں تلے ہو۔ جو ملک سے محبت کرنے والے اور مراٹہی مسلمان ہیں انہیں بھی آگاہ رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سی اے اے اور این آر سی پر مرکزی حکومت کو فوری طور پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ مرکزی حکومت اب کہہ رہی ہے کہ فی الحال کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، لیکن یہ فیصلہ کبھی نہ کبھی کرنا پڑے گا۔ملک میں ایک بار صفائی ہونا ضروری ہے۔
صرف دنگوں میں ہی متحد ہوتے ہیں ہندو
راج ٹھاکرے نے ہندوتو کی بات کرتے ہوئے غیر قانونی گھس پیٹھیوں کے خلاف جم کر الفاظ کے تیر چلائے۔ انہوں نے ہندؤوں کو آگاہ کرتے ہوئے متحد ہونے کے لئے حوصلہ افزائی کی اورکہا کہ، کیا صرف فساد ہونے پر ہم ہندو بنتے ہیں۔باقی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا؟تو کیا ہمیں ہندو بننے کے لئے فسادات کا انتظار کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہندؤوں پر ظلم ہوتے ہیں ، وہ ایک دہشت گرد ملک ہے،جہاں امریکہ پر حملہ کرنے والا اسامہ بن لادن رہتا تھا ، اس نے داؤد کو بھی پناہ دی ۔ ایسے میں وہاں کے مسلمانوں کو ہندوستانی شہریت دینے کی کیا ضرورت ہے۔راج ٹھاکرے نے کہا کہ ہندوستان میں سی اے اے کی مخالفت اس لئے ہو رہی ہے ، کیونکہ پڑوسی ممالک کے مسلمانوں کو اس قانون کے تحت شہریت دینے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ہم انہیں کیسے ہندوستان میں رہنے کا موقع دیں۔