نیشنل ڈیسک: 5 اگست کو ہندوستانی حکموت نے جموں کشمیر کو ملے خاص درجہ کو ختم کردیا۔ اس کے بعد سے ہی پاکستان دنیا میں ہر جگہ جموں کشمیر کا راگ الاپ رہا ہے لیکن چین کو چھوڑ کر کسی بھی ملک نے کشمیر پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ یہاں تک کہ مسلم مماک نے بھی عمران حکومت کو نصیحت دے ڈالی کہ وہ ہندوستان کے تئیں بے وجہ کی بیان بازی سے بچے اور تنازعہ کو مل - بیٹھ کر سلجھا لے۔
چین کی اپنی اہمیت ہے۔ وہ ایشیا کا سرمور بننا چاہتا ہے۔ اس راہ میں چین ہندوستان کو روڑا مانتا ہے، اس لئے وہ پاکستان کو ہندوستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ وہ پاکستان کو ہندوستان کے خلاف ہتھیار سمیت اقتصادی مدد بھی دے رہا ہے۔ اسی مالی مدد کا استعمال پاکستانی دہشت گردوں کو ٹریننگ دینے میں کرتا ہے۔ گھاس کی روٹی کھا کر بھی ہندوستان کو ہزار زخمی دینے کی پولیسی پر چلنے والے پاکستان کے حالات آج گھاس کی روٹی کھانے کے جیسے ہی بچی ہے۔ معیشت کی خستہ حالت کے بعد پاکستان اب بھی دہشت گردوں کو پالنے میں لگا ہوا ہے۔
کشمیر کو ہتھیارنے کے لئے ہندوستان پر چار جنگ تھوپ چکے پاکستان کا آج کوئی بین الاقوامی وجود نہیں بچا ہے۔ اس کے پیچھے گذشتہ سالوں میں ہندوستان کی سرگرم خارجہ پالیسی ہاتھ ہے۔ پاکستان موجودہ وقت میں دنیا سے الگ - تھلگ ہو چکا ہے۔ گذشتہ 70 سالوں کی تاریخ دیکھیں تو ہم نے جنگ کے میدان میں پاکستان کو دھول چٹائی ہے لیکن میز پر ہم پاکستان سے ہار گئے ہیں۔ 1948 میں جب قبائلیوں کے کردار میں پاکستانی فوجیوں نے جموں کشمیر میں تباہی مچائی تو جموں کشمیر کے راجا ہری سنگھ نے The Instrument of Accession پر دستخط کر اپنے صوبے کا ادغام ہندوستان میں کرلیا تھا۔
بتا دیوں کہ انہوں نے دفعہ 370 کی کوئی شرط نہیں رکھی تھی۔ اس کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے دوست شیخ عبداللہ کے کہنے پر ہندوستانی آئین کے میں صدر کے حکم سے جوڑا گیا تھا۔ دفعہ 370 کے چلتے ہی کشمیری خود کو باقی ہندوستان سے الگ سلجھنے لگے۔ وہیں شیخ عبداللہ کے کہنے پر نہرو نے قبائلیوں کو پیچھے دھکیلتی ہندوستانی فوج کو روک دیا۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ جموں کشمیر کے 35 فیصدی حصے (POK) پر آج پاکستان کا قبضہ ہے۔
22 فروری 1994 کو ہندوستانی پارلیمنٹ ووٹنگ پی او کے کی تجویز پاس کی گئی تھی لیکن اس کے بعد کسی بھی ہندوستانی حکومت نے اس سمت میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا لیکن مودی حکومت نے جموں کشمیر سے دفعہ 370 ہٹا کر علیحدگیوں کے جذبات کو گہرای چوٹ پہنچائی ہے۔ ساتھ ہی صوبے کو دو حصے میں بانٹنے کا فیصلہ بھی قابل تعریف ہے۔ اس سے ترقیاتی میں تیزی آئے گی۔
سال 1963 میں لداخ کے ایک حصے کو پاکستان نے چین کو دے دیا تھا جو آج بھی اس کے قبضے میں ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر چین کو بھی یہ واضح کردیا تھا کہ جو لداخ کا حصہ وہ قبضائے بیٹھا ہے وہ بھی ہندوستان ہے۔ چین نے اس پر بہت ہی سیدھا تبصرہ دیا تھا۔ ہندوستان کی بدلتی پالیسی کا اندازا آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آج خود پاکستان بھی جموں کشمیر کو لینے کی جگہ پر ہندوستان سے غلام کشمیر کیسے بچائے، اس وہ بیحد سنجیدگی سے غور کررہ اہے۔ عمران خان نے پاکستان میں ایک جلسے کے دوران خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ ہندوستان بالا کوٹ ایئر سٹرائیک کے بعد آزاد کشمیر (غلام کشمیر) میں کچھ بڑا کر سکتا ہے۔ ہندوستان کی پالیسی کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان آج ہار مانے بیٹھا اور بہت زیادہ کشمکش میں ہے۔