جالندھر: پی سی اے میں سیاست اس قدر حاوی ہوجائے گی ایسا کسی نے سپنے میں بھی نہیں سوچا ہوگا۔ پہلے کیپٹن سرکار کی دخل اندازی تھی۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ مان سرکار کی پی سی اے میں دخل اندازی چل رہی ہے۔ اگر یہ سچائی ہے تو یہ سب پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے سامنے کئی طرح کی دقتیں پیدا کر سکتی ہے۔
ویسے کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنے آپ میں بری نہیں ہوتی۔ اسے برا بناتے ہیں کچھ ایسے لوگ جو اپنے سوارتھوں کو سادھنے کے لئے اپنا چولا بدلتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی چولا اس شخص نے بدلا جو پہلے کیپٹن امریندر سنگھ کا وفادار تھا۔ اب وہ اپنے آپ کو اروند کیجریوال کا وفادار کہتا ہے۔ یہ بات اس لئے کی جارہی ہے کیونکہ کانگرس راج میں بھی اس کے پاس وہی عہدہ تھا اور اب عام آدمی پارٹی میں بھی اس کے پاس وہی عہدہ سرکار میں ہے۔ اس کے بارے میں تو یہی کہا جائے گا کہ پیسے کے دم پر یہ رتبہ خریدتے ہیں۔ اپنی محنت اور قابلیت کے دم پر وہ مقام حاصل نہیں کرتے۔ اب یہی پی سی اے کا سابق صدر عام آدمی پارٹی کے مفادات کو نظرانداز کرکے اپنا غلبہ قائم رکھنے کیلئے 'آپ' کے سامنے نت نئی دقتیں پیدا کر رہا ہے جسے پارٹی کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔ اس لئے آج پی سی اے اس سابق صدر کی کرتوتوں سے اس فساد میں پھنسی ہوئی ہے جس کا کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔
یہ صنعت کار سابق صدر کوئی عام آدمی پارٹی سے خندک تو نہیں نکال رہا۔ کیونکہ وقت سے پہلے ہی نئے پی سی اے کے چناؤ کی وجہ سے ان سے استعفیٰ کروایا گیا تھا۔ سب کی رضامندی سے بنا پی سی اے کا صدر گلزار اندر سنگھ چاہل کے راستے میں کانٹے بکھیرنے کی وجہ ہر کوئی پی سی اے سے جڑا آدمی اسی سابق صدر کو سمجھ رہا ہے۔ ہر کسی کی نگاہیں اس 20 تاریخ کی میٹنگ پر لگی ہوئی ہیں جو ہر طرح کے سام، دام، دنڈ اوربھید کی وجہ ہونے جارہی ہے۔
اس سارے پروگرام میں یہ اکیلے نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر سیکرٹری اور صلاحکار بھی چل رہے ہیں۔ کیونکہ آخرکار لڑائی تو اس بات کی ہے کہ کون ہوگا پی سی اے کا باس۔ اس سارے سلسلہ واقعات کو دیکھتے ہوئے بغیر کسی ہچک کے وہی پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ کھیلوں کی سیاست ہے یا سیاست کے کھیل جس میں نقصان کرکٹ کے ساتھ ساتھ اس پارٹی کا بھی جس کی چھتر چھایا میں اس کے اپنے ہی لوگ اسے دھوکہ دے رہے ہیں۔