انٹرنیشنل ڈیسک : عراق میں خانہ جنگی اور گذشتہ 2 مہینے سے بڑی سطح پر جاری احتجاجی مظاہروں کے درمیان وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے سنیچر کے روز اپنا استعفیٰ پارلیمنٹ کو سونپ دیا ہے ۔ا س کے بعد وزیر اعظم نے نگراں حکومت کی ذمہ داریوں پر چرچا کرنے کیلئے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلایا ہے ۔ عبدالمہدی نے 29 نومبر کو اعلان کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو اپنا استعفیٰ سونپیں گے تاکہ پارلیمنٹ حکومت مخالف مظاہروں کے جواب میں ایک نئی سرکار منتخب کر سکے ۔
بتا دیں خہ اس سال اکتوبر سے ہی عراق کے دارالحکومت بغداد کیع لاوہ وسط اور جنوبی عراق کے دیگر شہروں میں وسیع سطح پر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں ۔ یہاں کے لوگ وسیع سدھار ، بھرشٹاچار کے خلاف جنگ ، نوکریوں اور بہتر عام سہولات کے مطالبات کو لے کر سڑکوں پر نکل پڑے ہیں ۔ عراق کے سینئر مذہبی رہنما آیت اللہ السیستانی نسیریا میں عراقی فوجی فورسز کی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے کئی دنوں سے وزیر اعظم عدیل عبدالمہدی سے استعفے کا مطالبہ کررہے تھے ۔
اس کے بعد وزیر اعظم نے فوجی سربراہ جنرل شماری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ۔ جنرل شماری کو ہی نسیریا میں حکومت مخالفت مظاہروں کو دبانے کیلئے بھیجا گیا تھا ۔ جنرل نسیریا کے حکم پر سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کی ۔ جس میں 25 مظاہرین مارے گئے تھے ۔ عراق میں حکومت کے خلاف اسی سال یکم اکتوبر سے مظاہرے شروع ہوئے ہیں ۔
پہلے تو یہ مظاہرے پر امن رہے لیکن حکومت کی جانب سے ملا ٹھنڈے رد عمل کے بعد مظاہرین تشدد پر اتر آئے ۔ ان 60 دنوں میں اب تک 420 لوگوں کی موت ہو چکی ہے جبکہ 15000 سے زیادہ لوگ زخمی ہو چکے ہیں ۔ بغداد ان مظاہروں کا مرکز رہا ہے ۔ اس کے علاوہ نجف ، کربلا اور بسرا میں بھی مظاہرے ہوئے ۔