National News

دہلی آگ : آنکھوں میں آنسو ، جیب بھی خالی ،لاشوں کو گھر لے جائیں تو کیسے؟

دہلی آگ : آنکھوں میں آنسو ، جیب بھی خالی ،لاشوں کو گھر لے جائیں تو کیسے؟

نئی دہلی : رانی جھانسی روڈپر جان گنوانے والے مزدوروں کے پریوار اور رشتے داروں کی پیر کی صبح ہوتے ہی این این جے پی ہسپتال کی مورچری کے باہر بھیڑ لگنے لگی ۔ نم آنکھیں بتا رہی تھیں کہ پریوار کتنے بے بس ہیں لیکن یہاں پر بھی انہیں اپنوں کی لاشوں کو لے جانے کا کوئی راستہ نہین مل رہا تھا ۔ وہ مظاہرہ کر حکومت سے مطالبہ کررہے تھے کہ لاشوں کو ایمبولینس کے ذریعے بھیجا جائے ۔ اگر ٹرین سے بھیجا گیا تو ان کو شک ہے کہ لاش کو سٹیشن پر رکھ کر کہا جائے گا کہ لاشوں کو اپنی ذمہ داری اور اپنی گاڑیوں سے لے جاؤ ۔ کوئی بھی پریوار ایسا نہیں ہے جو لاشوں خو اپنے کرائے سے گھر لے جا سکے ۔ 

PunjabKesari
والد کا چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا…
بہار کے سمستی پور نواسی محمد ساجد بھی اس واردات کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ پریوار میں اہلیہ اور تین بچے ہیں ۔ اس کے رشتے دار واجد علی نے بتایا کہ ابھی جلد ہی گاؤں سے لوٹا تھا اور 6 مہینے سے اس فیکٹری میں کام کررہا تھا ۔ وہ پریوار کا واحد کمانے والا تھا ۔ اس کے پریوار میں اہلیہ شہناز پروین ، دو بیٹیاں ہیں ۔ اس کے رشتے دار نے بتایا کہ ابھی تین مہینے پہلے بیٹی گلناز پیدا ہوئی تھی جس نے اپنے والد کا چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا ۔ اسی گاؤں کے رہنے والے محمد واجد (17) بھی واردات کا شکار ہوگیا ۔ اسکے پریوار میں والدین ہیں ۔ چار مہینے پہلے ہی گاؤں سے لوٹا تھا ۔ گھر کی مالی حالت خراب ہونے کی وجہ سے کم عمر میں ہی روزگار کی تلاش میں دہلی آیا ۔ نوکری ملنے پر پریوار والے خوش تھے لیکن کہاں پتہ تھا کہ جو بیٹا دہلی کمانے گیا ، دوسروں کی لاپروائی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جائے گا ۔ 

PunjabKesari
تو آجا یہاں نوکری کی بات کرلی ہے 
ہری پور بہار ، مراد آباد ، مدھیہ پورہ، بدھ نگڑا بہار کے رہنے والے ایسے کئی شخص ایل این جے پی ہسپتال کی مورچری پر کھڑے تھے ۔ جن کا کہنا تھا کہ ھادثے میں مارے گئے ان کے اپنے دوست اور رشتے داروں کو انہوں نے خود ہی فون کر دہلی بلایا تھا ۔ ان کو کہا تھا کہ گھر کی مالی حالت سدھارنی ہے ، وہ فکر نہ کریں ۔ انہوں نے اپنے مالکوں سے بات کرلی ہے ۔ فیکٹری میں ہی رہنا ہے اور مہینے سے 8 سے دس ہزار روپے مل جائیں گے ۔ کھانے - پینے کی بھی کوئی دقت نہیں ہوگی ۔ ہمارے بھروسے پر ہی پریوار والوں نے ان کو یہاں بھیجا تھا ۔ ان کو اور ہم کو بھی نہیں پتہ تھا کہ جن کو وہ فیکٹری میں کام پر لگوا رہے ہیں ۔ وہ کچھ مہینے بعد ساتھ نہیں ہوں گے ۔ اب ان کو بھی لگ رہا ہے کہ جب وہ اپنے گاؤں جائیں گے تو ان کے پریوار والوں کو کیا جواب دیں گے ۔ ان سے کس طرح سے چہرہ ملا پائیں گے ۔ 

PunjabKesari
والد کی لاش کو دیکھنے نانی کے ساتھ آیا
حادثے میں کسی بزرگ نے اپنا بیتا تو کسی نے اپنے والد کو کھایا ۔ ایسا ہی ایک بیٹا مراد آباد نواسی علی  احمد (12) والد کے آخری دیدار کیلئے اپنی نانی کے ساتھ  آیا ۔ وہ بے بس تھا ۔ وہ اپنی نانی کی گود سے چپکا ہوا ایک کونے میں بیٹھا ۔ اپنے والد کی لاش کے پوسٹ مارٹم ہونے کا انتظار کررہا تھا ۔ اس نے بتایا کہ والد اسے انجینئر بنانا چاہتے تھے ۔ اب اس کا بس ایک ہی ہدف ہے کہ انجینئر بن کر والد کا خواب پوراکرنا ہے ۔ اس لئے وہ کافی محنت کیا کرتے تھے ۔ والد نے کہا تھا کہ تو بس پڑھ اور بڑا آدمی بن کر پریوار کا نام روشن کرنا ۔ 



Comments


Scroll to Top