سپریم کورٹ نے آج آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد داخل ہوئی کئی درخواستوں پر سماعت کی۔جس میں ایم ڈی ایم کے چیئرمین وائیکو نے نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ کی رہائی کو لے کر عرضی داخل کی تھی۔جس پر عدالت نے مرکزی سرکار اور جموں و کشمیر کو نوٹس جاری کیا۔اس کے علاوہ کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر نے وادی میں اخبار نکالنے کو لے کر ہو رہی پریشانی پر عرضی دائر کی تھی۔
وہیں ایک درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وادی کے لوگوں کو طبی خدمات نہیں مل رہی ہیں۔ جموں کشمیر میں حراست میں لئے جارہے بچوں کو لے کر بھی سماعت ہوئی ۔ سپریم کورٹ میں ایک عرضی گزار نے کہا کہ وادی میں 10 سے 18 سال کے بچوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اس پرچیف جسٹس رنجن گوگوئی نے عرضی گزار کو ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرنے کو کہا اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے بھی اس پر رپورٹ مانگی ہے ۔تمام درخواستوں پر اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے مرکزی حکومت کا موقف رکھا۔عدالت نے غلام نبی آزاد کو چار اضلاع کا دورہ کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے۔
سی جے آئی نے کہا میں خود سری نگر جاؤں گا -
وہیں سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے جج سے اس الزام پر رپورٹ طلب کی ہے کہ لوگوں کو ہائی کورٹ سے رابطہ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔
در اصل ایک عرضی کزار نے سپریم کورٹ میںبتایا تھا کہ چائلڈ ایکٹوسٹ کا اس وقت ہائی کورٹ جانا بھی مشکل ہو گیا ہے ۔چیف جسٹس نے اس دوران کہا کہ آ پ وجہ بتائیں کہ یہ مشکل کیوں ہے ؟۔
اطلاع بر عکس ملی تو ہوگی کارروائی
سی جے آئی رنجن گوگوئی نے کہا کہ اگر لوگ ہائی کورٹ کا رخ نہیں کر پارہے ہیں تو یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ ساتھ ہی انہوںنے کہا کہ میں خود سرینگر جاؤں گا اور جموں کشمیر ہائی کورٹ کے جسٹس سے بات کروں ۔ اگر جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے جج کی اطلاع اس کے برعکس ہوئی تو نتائج کے لئے تیار رہیں۔
انہوںنے کہا کہ اب اس معالے میں کسی وکیل کی بات نہیں سنیں گے ، بلکہ سیدھا ہائی کورٹ سے رابطہ کریں گے اور پور صورتحال کی جانکاری لی جائے گی ۔