پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو منگل کو خصوصی عدالت نے موت کی سزا سنائی۔مشرف نے 1999 سے 2008 تک پاکستان میں حکومت کی۔مشرف نے 3 نومبر 2007 میں آئین کو معطل کر ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ اس معاملے میں ان کے خلاف دسمبر 2013 میں سماعت شروع ہوئی تھی،مارچ 2014 میں انہیں غداری کا مجرم پایا گیا۔ حالانکہ مختلف فورم پر معاملہ چلنے کی وجہ سے فوجی تاناشاہ کا معاملہ لٹکتا چلا گیا۔
مشر ف نے سست انصاف عمل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مارچ 2016 میں پاکستان چھوڑ دیا اور دبئی چلے گئے۔ وہ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران ہیں، جن کے خلاف کورٹ میں مقدمہ چلایا گیا۔سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور لال مسجد کے مذہبی رہنما کے قتل کے معاملے میں انہیں مفرور قرار دیا جا چکا ہے۔ گزشتہ روز جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری معاملے میںپھانسی کی سزا سنائی گئی ۔پاکستان کی فوج نے اس عدالت کے اس حکم پر اپنا رد عمل دیا ہے۔
دیر شام پاکستانی فوج نے اپنی طرف سے بیان جاری کر کہا کہ پرویز مشرف غدار نہیں ہو سکتے۔پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بیان جاری کر کے کہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدالت کے فیصلے سے فوج کو دھکا لگا ہے اور یہ بہت افسوسناک ہے۔
غفور نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سابق فوجی سربراہ اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک کی 40 سالوں تک خدمت کی ہے،جس شخص نے ملک کے دفاع میں جنگ لڑی وہ کبھی غدار نہیں ہو سکتا۔اس عدالتی کارروائی میں آئین کی بھی نظراندازی کی گئی ہے۔یہاں تک کہ عدالت میں اپنا دفاع کرنے کا بھی موقع نہیں دیا گیا، جو کہ بنیادی حق ہے۔بغیر ٹھوس سماعت کے جلدی بازی میں فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔
غفور نے کہا کہ پاکستان کی فوج امید کرتی ہے کہ عدالتی فیصلہ ملک کے آئین کے مطابق ہو۔اسپیشل کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس وقار احمد سیٹھ کی صدارت والی بینچ میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نظر اکبر اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم شامل تھے ۔