انٹر نیشنل ڈیسک:امریکی حملے میں ایران کے میجر جنرل قاسم سلیمانی کی موت کے بعد ایران بدلے کی آگ میں سلگ رہا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے حالات کے چلتے پوری دنیا ٹینشن میں ہے۔امریکہ جنگ کی تیاریاں تیز کر رہا تھا کہ ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بناتے ہوئے درجنوں میزائل داغ دیں اور اسے ایران کی جانب سے جنگ کے آغاز مانا جا رہا ہے۔ مشرق وسطی میں امریکہ کی موجودگی کو لے کرخارجہ امور کے ماہر کا خیال ہے کہ امریکہ کی یہاں پر موجودگی صرف اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لئے ہی ہے۔اس کے یہ ذاتی مفاد تبھی پورے ہو سکتے ہیں جب ان ممالک میں امریکی سرپرستی میں حکومت قابض ہو۔
عراق میں صدام حسین کی موت کے بعد امریکہ کی سرپرستی میں اس کی پسند کی حکومت بنی تھی، لیکن دیگر جگہوںپر ایسا نہیں ہو سکا۔ماہرین کی رائے میں امریکہ ایران میں بھی اپنی ہی پسند کی حکومت چاہتا ہے جو اس کے مفادات کے لئے کام کرے، لیکن، ایران کے اعلیٰ لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں ہے۔
بتا دیں کہ کبھی ایران میں بھی امریکہ کی پسندیدہ حکومت ہوا کرتی تھی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ - ایران کے درمیان دشمنی کی وجہ ایک ہندوستانی ہے۔اس حکومت کو ایک ہندوستانی نے ہی چیلنج کیا تھا جو بعد میں ملک کا اعلیٰ لیڈر بھی بنا تھا۔ان کا ہی نام تھا آیت اللہ روح اللہ خامنہ ای ہے ۔ خامنہ ای کے دادا سید احمد مسوی اترپردیش کے بارہ بنکی کے رہنے والے تھے۔ 1830 کی دہائی میں وہ اودھ کے نواب کے ساتھ مذہبی سفر پر عراق اور پھر ایران گئے تھے۔لیکن اس کے بعد یہاں سے ان کے لوٹنے کا ہی دل نہیں کیا اور وہ وہاں کے خامنہ ای گاںؤ میں بس گئے۔
ڈائچے ویلے کے مطابق ان کے بعد کی نسل نے خامنہ ای کو اپنے سر نام کی طرح استعمال کیا اور آج یہ نام ایران کے سب سے طاقتور شخص کے ساتھ منسلک ہے۔ ایران کے انقلاب کے کامیاب ہونے سے پہلے تک ایران کے شاہ کی حکومت میں خامنہ ای کوہندوستانی ملا اور ایجنٹ تک بھی کہا جاتا تھا۔ آیت اللہ کو غزل سننے کا شوق تھا۔ایک مضمون میں اس شوق کو لیکر آیت اللہ کو کافی برا بھلا کہا گیا تھا،لیکن شاہ کا یہ داؤ الٹا ثابت ہوا اور عوام ان کے ہی خلاف سڑکوں پر اتر آئی تھی۔
1980 میں عراق نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا ساتھ روس- امریکہ اور برطانیہ نے دیا۔لیکن آٹھ سال تک چلے اس جنگ میں امریکہ کو کچھ حاصل نہیں ہو سکا. آخر کار امریکہ کو مجبورا سیسمجھوتہ کرنا پڑا. اس کے بعد یہ دشمنی تب اور بڑھ گئی جب 1988 میں ایران کے ایک مسافر طیارے کو امریکہ نے مار گرایا تھا۔اس میں دس ہندوستانی سمیت کل 290 مسافر سوار تھے۔اس حملہ کے خلاف ایران انٹرنیشنل کورٹ تک گیا تھا۔ خامنہ ای نے اس کے بعد ملک کو نئی طاقت دینے کے لئے جوہری پروگرام شروع کیا۔ان کے ہی دور میں ملک کے موجودہ اعلیٰ لیڈر علی خامنہ ای صدر تھے ۔ 1989 میںخامنہ ای کے انتقال کے بعد علی کو ملک کا اعلیٰ لیڈر بنایا گیا۔وہ 1981 سے 1989 تک ملک کے صدر رہے تھے۔