اسلام آباد: پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ تشدد کے واقعات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک اور تازہ تصویر سامنے آئی ہے۔پاکستان کے سندھ صوبے کے گھوتکی علاقے میں شدت پسندوںنے ایک مندر میں جم کر توڑ پھوڑ کی اور آگ لگادی ۔یہ واقعہ مقامی ہائی اسکول کے ایک ہندو ٹیچرپر توہین رسالت کے جھوٹے الزامات سے شروع ہواتھا ۔
ٹیچر پر الزام ایک طالب علم نے لگایا تھا۔اس کی خبر جب شدت پسند عناصر کو لگی تو انہوں نے اسکول اور مندر پر حملہ بول دیا اور جم کر توڑ پھوڑ کی۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس موقع پر وہاں موجود پولیس تماش بین بنی رہی۔اس واقعہ کے بعد ہندو طبقے کے لوگوں میں خوف کا ماحول ہے اور گھوٹکی میں سنا ٹا چھایا ہوا ہے ۔
یہ سب اس پاکستان میں ہوا جہاں کے وزیر اعظم دہشت گردوں اور پتھر بازوںپر ایکشن کا مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کی گیدڑبھبکی دیتے ہیں اور ہندوستان کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا راگ الاپتے ہیں۔ اسی پاکستان میں مسلسل اقلیتوں پر حملوں کی خبر آ رہی ہے۔حال ہی میں ایک سکھ لڑکی کے زبردستی تبدیلی مذہب اور نکاح کا بھی کیس سامنے آ چکا ہے۔ اس کے علاوہ دس سال کی ایک نابالغ ہندولڑکی کا جبراً مذہب تبدیل کراکر نکاح کرادیا گیا ۔
اس سے پہلے سندھ میں ایک ہندو لڑکی کو اغوا کرنے کی خبر آئی تھی ۔اسی طرح پاکستان میں عمران کی پارٹی کے ہی ایک سابق ہندو رکن اسمبلی رہے بلدیو کمار پناہ لینے بھارت پہنچ چکے ہیں۔انہوںنے بھی بھارت پہنچ کر پاکستان میں اقلیتوں پر ہورہے مظالم کی داستان کی بیان کی ، جس کے بعد انکو دھمکیاں بھی دی گئیں۔
بتادیں کہ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے بھی پاکستان کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ،جو ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہندوستان میں اقلیت محفوظ نہیں ہے ، وہ پہلے اپنے گریباں میں جھانکے۔ انہوںنے کہاتھا کہ ہندوستان میں اقلیتی طبقہ محفوظ ہے اوررہے گا ۔